استغلال؛ایک سماجی اور اخلاقی المیہ
استغلال یا Exploitation انسانی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے جس میں طاقت ور افراد یا گروہ کمزوروں کو اپنے مفادات کےلئے استعمال کرتے ہیں۔یہ عمل صرف مالی استحصال تک محدود نہیں ،بلکہ اس میں جذباتی،سماجی،اور حتی کہ مذہبی طریقوں سے لوگوں کا ناجائز فائدہ اٹھانا بھی شامل ہے۔استغلال کی یہ لعنت معاشرے کے ہر طبقے میں پائی جاتی ہے،چاہے وہ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا غریب ملک ،اس کا شکار ہر کوئی بن سکتاہے۔
استقلال کی تاریخی جڑیں
تاریخ گواہ ہے کہ طاقت اور اختیار کے حامل لوگوں نے ہمیشہ کمزوروں کا استحصال کیاہے۔قدیم دور میں غلامی اس کی واضح مثال تھی جب انسانوں کو جانوروں کی طرح خریدا اور بیچا جاتا تھا ۔وسطی دورکے یورپ میں جاگیردارن مزدوروں سے نہ صرف مشقت کرواتے تھے بلکہ انہیں بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھتے تھے۔استعماری دور میں یورپی طاقتوں نے ایشیا،افریقہ اور لاطینی امریکا کے وسائل کو لوٹنے کے ساتھ ساتھ مقامی آبادیوں کو بھی غلام بنالیا۔
استغلال کی جدید شکلیں
آج کے دور میں استغلال کی شکلیں بدل گئی ہیں،لیکن اس کی شدت کم نہیں ہوئی۔مثال کے طور پر:
1۔معاشی استغلال:بڑی کمپنیاں غریب ممالک میں سستے مزدوروں سے کام کرواتی ہیں،جہاں انہیں مناسب اجرت اور تحفظ نہیں دیا جاتا۔بچوں سے مشقت لینا،خواتین کو کم تنخواہ پر ملازم رکھنا،اور مزدوروں کو سوشل سیکورٹی سے محروم رکھنا اس کی عام مثالیں ہیں۔
2۔جذباتی استغلال:رشتوں میں ایک فریق دوسرے کی کمزوری یا محبت کا ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے۔مثلا والدین کی اولاد سے زیادتی یا شریک حیات کا جذباتی دباؤ۔
3مذہبی استغلال:بعض لوگ مذہبی جذبات
کوابھار کر عوام سے مالی فائدہ حاصل کرتے ہیں یا اپنی سیاسی طاقت بڑھاتے ہیں۔
4۔ٹیکنالوجی کا استغلال :ڈیٹا چوری،آن لائن دھوکہ دہی،اور سائبر کرائم جیسی نئی شکلیں بھی اب سامنے آرہی ہیں۔
استغلال کے سماجی اثرات
استغلال معاشرے میں عدم مساوات،غربت اور نفرت کو جنم دیتاہے۔جب لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتاہے تووہ سماجی بغاوت پر مجبور ہوجاتے ہیں۔استحصال ذدہ افراد نفسیاتی طور پر ٹوٹ جاتے ہیں،جس سے خاندانی نظام کمزور ہوتاہے اور معاشرہ انتشار کا شکار ہوجاتاہے۔
استغلال کے خلاف اقدامات
اس المیے کوروکنے کے لئے انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر کوششیں ضروری ہیں؛
۔حکومتوں کو مزدوروں کے حقوق کے تحفظ،کم از کم اجرت کے قوانین
اور استحصال
کے خلاف سخت سزائیں نافذ کرنی چاہئیں۔
۔عوام میں شعور بیدار کرنے کے لئے تعلیم اور میڈیا کو مؤثر کردار اداکرنا چاہیے۔
۔مذہبی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ استحصال کے خلاف تعلیمات کو عام کریں ۔قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :اور لوگوں کی چیزیں ناحق مت کھاؤ (البقرہ:188)،جو استحصال کی مذمت کرتاہے۔
– ہر فرد کواپنی ذات سے شروع کرتے ہوئے یہ عہد کرنا چاہیے کہ وہ کسی کی کمزوری کو فائدہ نہیں اٹھائے گا۔
نتیجہ
استغلال ایک ایسا سماجی زہر ہے جو انسانیت کو اندر ہی اندر کھوکھلا کردیتا ہے۔اس کے خلاف جنگ صرف حکومتوں یا اداروں کی ذمہ داری نہیں،بلکہ ہر شہری کو اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھنی چاھئے۔ہمیں یہ یاد رکھنا چاھئے کہ جو معاشرہ کمزوروں کے ساتھ انصاف کرتاہے،وہی حقیقی ترقی کی منزل تک پہنچتا ہے۔ والسلام معین الدین 00923122870599
