نوروز:فطرت کی تجدید اور انسانی ہم آہنگی کا جشن

تعارف

نوروز،جو “نیادن”کے معنی رکھتاہے،ایران کا ایک قدیم ترین تہوار ہے جو ہر سال موسم بہار کے آغاز پر 21مارچ کومنایاجاتاہے۔یہ جشن نہ صرف ایران ،افغانستان،تاجکستان،اور ازبکستان جیسے ممالک میں بلکہ وسطی ایشیا،قفقاز،اور کردستان کے خطوں میں بھی انتہائی عقیدت اور جوش و خروش سے منایا جاتاہے۔نوروز کا تہوار صدیوں سے انسانی تہذیب کو فطرت کے ساتھ ہم آہنگ کرنے،نئے عزم اور امیدوں کو جنم دینے کا پیغام دیتا آیا ہے۔

تاریخی پس منظر

نوروز کی تاریخ تقریبا 3000 سال پرانی ہے ،جس کی جڑیں قدیم فارسی تہذیب اور زرتشت مذہب سے ملتی ہیں۔روایات کے مطابق ،یہ تہوار شاہ جمشید کے دور میں شروع ہوا،جو موسم بہار کی آمد پر فطرت کی تجدید اور کھیتی باڑی کے نئے موسم کے آغاز کی خوشی میں منایا جاتا تھا۔وقت گزرنے کے ساتھ ،نوروز نے مختلف ثقافتوں اور مذاہب کو اپنے دامن میں سمولیا اورآج بھی یہ ایک

عالمی ثقافتی ورثے کی حیثیت رکھتا ہے۔2009میں یونیسکو نے نوروز کو انسانی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا۔

ثقافتی رسومات اور علامات

نوروز کی تیاریاں گھروں کی صفائی (خانہ تکانی)سے شروع ہوتی ہیں،جو جسمانی اور روحانی پاکیزگی کی علامت ہے۔اس موقع پر “ہفت سین“نامی ایک خاص دستر خوان سجایا جاتاہے،

جس پر سات اشیاء رکھی جاتی ہیں جو فارسی حرف”س”سے شروع ہوتی ہیں۔

1۔سبزہ(اناج سے اگایا گیا سبزہ):نمو اور زندگی کی علامت۔

2۔سمنو(گندم کی مٹھائی):شیریں زندگی کی خواہش۔

3۔سنجد (ایک پھل):

محبت اور خوشبو کی نشانی۔

4۔سیر(لہسن):

صحت اور طاقت۔

5۔سیب (

صحت اور حسن۔

6۔سماق (سماق کے پھل ):طلوع آفتاب کی رمز۔

7۔سرکہ:

صبر اور عمر درازی۔

اس کے علاوہ، دسترخوان قرآن ،آئینہ (خود شناسی کی علامت)،موم بتی (روشنی اور خوشی )،اور سکے (خوشحالی )بھی رکھے جاتے ہیں۔

خاص تقریبات

۔چہار شنبہ سوری:

نوروز سے پہلے آخری بدھ کو آگ پر چھلانگ لگا کر برائیوں سے پاک ہوا جاتاہے۔

عید دیداری:

رشتہ داروں اور دوستوں سے ملاقاتیں،تحائف کاتبادلہ۔

نوروزی کھیل:

کشتی ،گھڑ سواری،اور مقامی کھیلوں کا انعقاد۔

بین الاقوامی اہمیت

نوروز کو 2010میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے “بین الاقوامی نوروز دن”کے طور پر تسلیم کیا،جو ثقافتی تنوع اور امن کی علامت ہے۔یہ تہوار نسلی ،مذہبی ،اور لسانی اختلافات سے بالاتر ہو کر انسانی یکجہتی کا پیغام دیتاہے۔

نتیجہ

نوروز محض ایک تہوار نہیں ،بلکہ فطرت اور انسان کے درمیان گہرے رشتے کی عکاسی ہے۔یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ تبدیلی اور تجدید زندگی کا حصہ ہیں۔اور ہر نیادن امیدوں اور نئے عہد کے ساتھ آیا ہے۔تاریکی کے بعد روشنی ،سردی کے بعد بہار۔اور مشکلات کے بعد خوشحالی کا یقین ہی نوروز کا اصل پیغام ہے۔جیسے کہ شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہاتھا”:زندگی ہے تو امید ہے،امید ہے تو زندگی ہے۔”

نوروز ہمیں یہی سبق دیتاہے کہ ہمیشہ نیا سوچیں ،نیا کریں،اور فطرت کی طرح خود کو بھی مسلسل بہتر بناتے رہیں۔

والسلام

معین الدین

00923122870599

تبصرہ کریں

Design a site like this with WordPress.com
شروع کریں